فراز احمد فراز



منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا
بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی

خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
کیسے پایا تھا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے

مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے

میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
جانے کس عالم میں تو بچھڑا کہ ہے تیرے بغیر

آج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا
عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ

جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے شیر کا
جس کو بھی چاہا اسے شدت سے چاہا ہے فرازؔ

سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا


<------------------------->


اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا

میرے جھوٹ کو کھولو بھی اور تولو بھی تم 
لیکن اپنے سچ کو بھی میزان میں رکھنا 

کل تاریخ یقیناً خود کو دہرائے گی 
آج کے اک اک منظر کو پہچان میں رکھنا 

بزم میں یاروں کی شمشیر لہو میں تر ہے 
رزم میں لیکن تلوار کو میان میں رکھنا 

آج تو اے دل ترک تعلق پر تم خوش ہو 
کل کے پچھتاوے کو بھی امکان میں رکھنا 

اس دریا سے آگے ایک سمندر بھی ہے 
اور وہ بے ساحل ہے یہ بھی دھیان میں رکھنا 

اس موسم میں گل دانوں کی رسم کہاں ہے
 لوگو اب پھولوں کو آتش دان میں رکھنا


0 comments:

Post a Comment