Famous Poets


خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم

بچھڑ گیا تری صورت بہار کا موسم

کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں

ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم

وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لوٹ آئے

سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم

پیام آیا ہے پھر ایک سرو قامت کا

مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم

وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے

مرے بدن کو ملا ہے چنار کا موسم

رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر

گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم

ہوا چلی تو نئی بارشیں بھی ساتھ آئیں

زمیں کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم

وہ میرا نام لیے جائے اور میں اس کا نام

لہو میں گونج رہا ہے پکار کا موسم

قدم رکھے مری خوشبو کہ گھر کو لوٹ آئے

کوئی بتائے مجھے کوئے یار کا موسم

وہ روز آ کے مجھے اپنا پیار پہنائے

مرا غرور ہے بیلے کے ہار کا موسم

ترے طریق محبت پہ بارہا سوچا

یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم

<------------------------------->

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا

جتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا

تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو

کٹ جائیں میری سوچ کے پر تم کو اس سے کیا

اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ

میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر تم کو اس سے کیا

ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض

سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا

لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو

تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا

تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے

تنہا کٹے کسی کا سفر تم کو اس سے کیا

<------------------------------->

اپنی ہی صدا سنوں کہاں تک

جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک

ہر بار ہوا نہ ہوگی در پر

ہر بار مگر اٹھوں کہاں تک

دم گھٹتا ہے گھر میں حبس وہ ہے

خوشبو کے لئے رکوں کہاں تک

پھر آ کے ہوائیں کھول دیں گی

زخم اپنے رفو کروں کہاں تک

ساحل پہ سمندروں سے بچ کر

میں نام ترا لکھوں کہاں تک

تنہائی کا ایک ایک لمحہ

ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک

گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج

میں تجھ سے جدا رہوں کہاں تک

سکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو

دکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک

منسوب ہو ہر کرن کسی سے

اپنے ہی لیے جلوں کہاں تک

آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں

پھول اس کے لئے چنوں کہاں تک





کچا تیرا مکان ہے کچ تو خیال کر



منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا
بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی

خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
کیسے پایا تھا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے

مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے

میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
جانے کس عالم میں تو بچھڑا کہ ہے تیرے بغیر

آج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا
عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ

جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے شیر کا
جس کو بھی چاہا اسے شدت سے چاہا ہے فرازؔ

سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا


<------------------------->


اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا

میرے جھوٹ کو کھولو بھی اور تولو بھی تم 
لیکن اپنے سچ کو بھی میزان میں رکھنا 

کل تاریخ یقیناً خود کو دہرائے گی 
آج کے اک اک منظر کو پہچان میں رکھنا 

بزم میں یاروں کی شمشیر لہو میں تر ہے 
رزم میں لیکن تلوار کو میان میں رکھنا 

آج تو اے دل ترک تعلق پر تم خوش ہو 
کل کے پچھتاوے کو بھی امکان میں رکھنا 

اس دریا سے آگے ایک سمندر بھی ہے 
اور وہ بے ساحل ہے یہ بھی دھیان میں رکھنا 

اس موسم میں گل دانوں کی رسم کہاں ہے
 لوگو اب پھولوں کو آتش دان میں رکھنا